Dec 2, 2012

فیس بک پرکشمیر کی تاریخ کے حوالے سے واقعات ،اعداد وشمار اور تاریخوں کو مرتب کرنے والے

وادی میں آئی ٹی ایکٹ کے تحت 16کیس درج
سپریم کورٹ ریمارکس کے بعد مرکزی سرکار قانون میں ترمیم لانے کیلئے تیار

سرینگر// پچھلے دو سالوں کے دوران فیس بک اور دیگر سماجی رابطہ کی ویب سائیٹوں پر اظہار رائے کرنے کی پاداش میں جہاں وادی کشمیر کے نوجوانوں کو گرفتار کرکے اُن کیخلاف کیس درج کرنے کے علاوہ انہیں شدید ذہنی و جسمانی ٹارچر کا نشانہ بنایا گیاوہیںدوسری جانب ممبئی میں شیو سینا سربراہ بال ٹھاکرے کی موت کے بعد ہونے والی ہڑتال پرسماجی رابطے کی ویب سائٹ پر تبصرہ کرنے کے الزام میں گرفتار دو لڑکیوں کی رہائی اور اس پورے قانون کاغلط استعمال کرنے پر عدالت عظمیٰ نے کل 4ریاستوں کے نام نوٹس جاری کردیا ہے۔ یہ امر قابل ذکرہے کہ میڈیا پر ممبئی پولیس کی جانب سے دو لڑکیوں کو گرفتار کرنے کا معاملہ جب سرخیاں بن گیا تو مہاراشٹر سرکار نے ایک ڈی ایس پی سمیت 2 پولیس افسران کو اس کی پاداش میں معطل کیا جبکہ ایک مجسٹریٹ کیخلاف بھی وجہ بتائو نوٹس جاری کیا گیا۔  اس کے علاوہ جن دو لڑکیوں کے خلاف ایف آئی آر درج کئے گئے تھے وہ بھی واپس لئے گئے لیکن وادی میں اسی آئی ٹی ایکٹ کی شق66کے تحت اب تک   16معاملات درج کئے گئے اور قابل غور بات یہ ہے کہجن نوجوانوں کے خلاف اس قانون کا سہارا لے کر کیس درج کئے گئے وہ اب تک نہ تو واپس  لئے گئے اور نہ ہی وادی میں کسی  قانونی مبصر یا سیول سوسائیٹی کی جانب سے اس طرح کی کوئی مفاد عامہ عرضی ریاستی ہائی کورٹ میں داخل کی گئی جس طرح سپریم کورٹ میں  کی گئی ہے۔سپریم کورٹ نے  اپنی پہلی ہی سماعت کے دوران تمام ریاستی سرکاروں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ہر ایک ریاست میں اس قانون کا غلط طریقے سے استعمال ہوتا ہے ، لہٰذا قانون میں ترمیم کرنا لازمی بن گیا ہے۔  یہ معاملہ اس قدر اہم بن گیا ہے کہ جمعہ کی شب  انفارمیشن ٹیکنالوجی کے مرکزی وزیر مرلی دیورا نے ایک انٹر ویو میں کہا کہ مرکزی سرکار آئی ٹی ایکٹ کی شق66میں ترمیم کیلئے تیار ہے اور اسے عوام دشمن نہیں رہنے دیا جائے گا۔ان کا کہنا تھا کہ انہیں اس بارے میں کوئی علمیت نہیں کہ ریاستی سرکاریں کس طرح اس قانون کا غلط استعمال کرتی ہیں تاہم  وہ اس بات سے متفق ہے کہ آئین میں شہریوں کو جو حقوق مہیا کئے ہیں انہیں قانون سازی  سے معطل نہیں کیا جاسکتا۔سپریم کورٹ کے جن وکلاء نے اس شق کو ختم کرنے کے سلسلے میں دلائل دئے ان کا کہنا ہے کہ  بہت جلد  عدالت عظمیٰ اس کیس کے سلسلے میں اہم فیصلہ سنانے جارہی ہیں کیونکہ چیف جسٹس آف انڈیا نے پہلے ہی اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ وہ حیران ہیں کہ  اس طرح کی کوئی مفاد عامہ عرضی پہلے کیوں نہیں داخل کی گئی۔ ریاست کے قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ  انہیں امید ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے کوئی فیصلہ سامنے آنے کے بعد ریاستی پولیس نے جن نوجوانوں کو اس قانون کے دائرے میں لاکر  کیس درج کئے تھے  ان کو بھی راحت مل جائے گی۔ وادی میں اس قانون کا اطلاق سب سے پہلے 12ویں جماعت کے ایک طالب علم فیضان صمد پر کیا گیا تھا ۔ اس کے بعد ریاستی پولیس نے کسی نہ کسی طریقہ سے  مزید 15نوجوانوں کو اس قانون کے دائرے میں لایا  اگر چہ انہیں گرفتار کیا گیا  تاہم بعد میں انہیں عدالتوں سے عبوری راحت ملی لیکن ابھی بھی مختلف عدالتوں میں ان کے خلاف کیس چل رہے ہیں۔کشمیر پولیس نے فیس بک پرکشمیر کی تاریخ کے حوالے سے واقعات ،اعداد وشمار اور تاریخوں کو مرتب کرنے والے اسلامک سٹوڈنٹس لیگ کے سربراہ شکیل احمد بخشی کو بھی گذشتہ سال سماجی رابطہ کی ویب سائیٹوں پر اظہار رائے کی پاداش میں ہی پی ایس اے کے تحت نظر بند کیا تھا۔ کشمیر عظمیٰ سے بات کرتے ہوئے شکیل بخشی نے کہا کہ ممبئی میں ہوئے واقعات نے ایک بار پھر ثابت کردیا ہے کہ آزاد خطوں اور غلام سرزمینوں میں کیا فرق ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ریاست جموں وکشمیر میں قانون حاکموں کی مرضی کے مطابق جوڑے توڑے اور مروڑے جاتے ہیں جبکہ دیگر علاقوں میں حاکموںکو قانون کی مرضی کے مطابق چلنا پڑتا ہے۔ فیس بک پر اظہار رائے کے معاملہ میں پچھلے سال گرفتار ہوئے ایک نوجوان نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ فیس بک استعمال کرنے کی پاداش میں انہیں پچھلے سال گرفتار کر کے نہ صرف ان کے خلاف مختلف دفعات کے تحت کیس درج کیا گیا بلکہ ان کو زیر حراست شدید ذہنی و جسمانی ٹارچر کا نشانہ بنایا گیا ۔ مذکورہ نوجوان کا کہنا تھاکہ ممبئی میں ہوئے واقعات اور اس پر میڈیا کی ہائے واویلا اور عدالت کی چابک دستی نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ جواہر ٹنل کو عبورکرنے کے ساتھ ہی سارے قوانین اور ضابطے بدل جاتے ہیں ۔ اس نوجوان کا کہنا تھاکہ ان کے ساتھ مزید 15نوجوان سماجی رابطہ کی ویب سائیٹ کے استعمال کے الزام میں ہی گرفتار تھے اور ہم کو زیر حراست اتنا حراساں کیا گیا کہ ہم نے پلٹ کرسماجی رابطہ کی ویب سائیٹوں کی طرف دیکھا بھی نہیں ۔ پچھلے دو سالوں کے دوران پولیس نے متعدد نوجوانوں اور سماجی کارکنوں سمیت صحافیوں کے خلاف بھی سماجی رابطہ کی ویب سائیٹوں پر اظہار خیال کی پاداش میں کیس درج کئے جن میں بی بی سی سے وابستہ صحافی نعیمہ احمد مہجور اور شمالی کشمیر کے میر واعظ قاضی یاسر بھی شامل ہیں ۔ پولیس نے بعد ازاں یہ دعویٰ کیا کہ یہ کیس واپس لے لئے گئے ہیں۔ سیاسی محبوسین کے کیسوں کی پیروی کرنے والے معروف وکیل میر شفقت حسین نے کشمیر عظمیٰ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فیس بک کے استعمال پر عائد کئے جانے والے انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ کی دفعہ66کااطلاق پورے ہندوستان میں ہوتا ہے، تاہم ریاست جموں و کشمیر میں اس قانون سے لاعلمی کی وجہ سے یہاں اس قانون کے تحت گرفتار شدگان کو مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہاں اس قانون کے تحت گرفتار کئے گئے افراد پر پی ایس اے تک عائد کر دیا گیا ہے جب کہ کچھ کے خلا ف اب بھی کیس کی شنوائی جاری ہے۔

No comments: